کاروباری ٹوٹکے

مرشد کے کاروباری ٹوٹکے نوکری نہیں کاروبار کیجیۓ

Breaking

Thursday, 15 February 2018

February 15, 2018

زیتون ( OLIVE ) کی کاشت :


بسم الله الرحمن الرحيم.
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ. وَطُورِ سِينِينَ. وَهَذَا الْبَلَدِ الأَمِينِ. لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ. ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ. إِلاَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ. فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ. أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ ..
زیتون کا باغ لگائیں ۔ ہزار سال تک بھر پور منافع کمائیں
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر آپ پاکستان میں ایک مرتبہ زیتون کا باغ لگا لیں تو وہ کم از کم ایک ہزار سال تک پھل دیتا رہے گا.
زیتون کن کن اضلاع میں لگایا جاسکتا ہے؟
زیتون کے باغات پنجاب سمیت پاکستان کے تمام علاقوں میں کامیابی سے لگائے جا سکتے ہیں. حتی کہ چولستان میں بھی زیتون کی کاشت ہو سکتی ہے.
لیکن فی الحال زیتون کی کاشت کے حوالے سے حکومتِ پنجاب کی ساری توجہ پوٹھوہار کے علاقوں پر مرکوز ہے.
زیتون کس طرح کی زمین میں لگایا جاسکتا ہے؟
زیتون کا پودا ہر طرح کی زمینوں مثلاََ ریتلی، کچی، پکی، پتھریلی، صحرائی زمینوں میں کامیابی سے لگایا جا سکتا ہے. صرف کلر والی زمین یا ایسی زمینیں جہاں پانی کھڑا رہے، زیتون کے لئے موزوں نہیں ہیں.
زیتون کو کتنے پانی کی ضرورت ہے؟
زیتون کے پودے کو شروع شروع میں تقریبا دس دن کے وقفے سے پانی لگانا چاہیئے. جیسے جیسے پودا بڑا ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے اس کی پانی کی ضرورت بھی کم ہوتی جاتی ہے.
دو سال کے بعد زیتون کے پودے کو 20 سے 25 دن کے وقفے سے پانی لگانا چاہیئے.
زیتون کے پودے کب لگائے جا سکتے ہیں؟
زیتون کے پودے موسمِ بہار یعنی فروری، مارچ , اپریل یا پھر مون سون کے موسم یعنی اگست، ستمبر ، اکتوبر میں لگائے جا سکتے ہیں.
زیتون کے پودے لگانے کا طریقہ کار کیا ہے؟
زیتون کا باغ لگاتے ہوئے پودوں کا درمیانی فاصلہ 10×10 فٹ ہونا ضروری ہے. اس طرح ایک ایکڑ میں تقریبا 400 پودے لگائے جا سکتے ہیں. یہ بھی دھیان رہے کہ زیتون کے پودے باغ کی بیرونی حدود سے تقریباََ 8 تا 10 فٹ کھیت کے اندر ہونے چاہیئں.
پودے لگانے کے لئے دو فٹ گہرا اور دو فٹ ہی چوڑا گڑھا کھودیں. اس کے بعد زرخیز مٹی اور بھل سے گڑھوں کی بھرائی کر دیں. اب زیتون کا پودا لگانے کے لئے آپ کی زمین تیار ہے.
پودے کو احتیاط سے شاپر سے نکالیں تاکہ گاچی وغیرہ ٹوٹ کر جڑوں کو ہوا نہ لگ جائے. گڑھے کی مٹی کھود کر پودا لگائیں اور اس کے بعد پودے کے چاروں طرف مٹی کو پاؤں کی مدد سے دبا دیں تاکہ پودا مستحکم ہو جائے. چھوٹے پودے کا تنا ذرا نازک ہوتا ہے اس لئے پودے کو پلاسٹک کے پائپ سے سہارا دے دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے. سہارے کے لئے لکڑی کا استعمال نہ کریں کیونکہ لکڑی کو دیمک لگ سکتی ہے جو بعد میں پودے پر بھی حملہ آور ہو سکتی ہے.
زیتون کی کون کون سی اقسام کہاں کہاں کاشت کی جا سکتی ہیں؟
پوٹھوہار اور اس کے ملحقہ اضلاع کے لئے درج ذیل اقسام کاشت کی جا سکتی ہیں.
نمبر 1. لسینو
نمبر 2. گیملک
نمبر 3. پینڈولینو
نمبر 4. نبالی
نمبر 5. آربو سانا
نمبر 6. کورونیکی
نمبر 7. آربیقوینہ
پنجاب اور سندھ کے گرم علاقوں سمیت دیگر گرم علاقوں کے لئے درج ذیل اقسام کاشت کرنی چاہئیں.
نمبر 1. آربو سانا
نمبر 2. کورونیکی
نمبر 3. آربیقوینہ
یاد رکھیں زیتون کا باغ لگاتے وقت کم از کم دو یا دو سے زائد اقسام لگانی چاہئیں اس طرح بہتر بارآوری کی بدولت پیداوار اچھی ہوتی ہے.
زیتون کے باغ کو کھادیں کتنی اور کون کونسی ڈالنی چاہئیں؟
کھاد دوسرے سال کے پودے کو ڈالیں. دوسرے سال کے پودے کے لئے:
گوبر کی کھاد . . . . 5 کلوگرام فی پودا ڈالیں . . . . اگلے سالوں میں ہر سال 5 کلو گرام کا اضافہ کریں
نائٹروجن کھاد . . . . 200 گرام فی پودا ڈالیں . . . . اگلے سالوں میں ہر سال 100 گرام کا اضافہ کریں
فاسفورس کھاد . . . . 100گرام فی پودا ڈالیں . . . . اگلے سالوں میں ہر سال 50 گرام کا اضافہ کریں
پوٹاش کھاد . . . . . . 50 گرام فی پودا ڈالیں . . . . .. اگلے سالوں میں ہر سال 50 گرام کا اضافہ کریں
زیتون کے پودے کو پھل کتنے سال بعد لگتا ہے؟
عام طور پر 3 سال میں زیتون کے پودے پر پھل آنا شروع ہو جاتا ہے.
زیتون کے پودے پر پھل پہلے سبز اور پھر جامنی ہو جاتا ہے۔ سبز پھل اچار اور جامنی تیل نکالنے کے لئے استعمال ہوتا ہے
زیتون کے باغ سے فی ایکڑ کتنی پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے؟
زیتون کے ایک پودے سے پیداوار کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آپ نے پودے کی دیکھ بھال کس طرح سے کی ہے.
اچھی دیکھ بھال کی بدولت ایک پودے سے 60 کلوگرام یا اس سے بھی زیادہ زیتون کا پھل با آسانی حاصل ہو سکتا ہے.
لیکن اگردیکھ بھال درمیانی سی کی گئی تو 40 کلوگرام فی پودا پھل حاصل ہو سکتا ہے. انتہائی کم دیکھ بھال سے پودے کی پیداوار 25 سے 30 کلوگرام فی پودا تک بھی گر سکتی ہے. لہذا ماہرین زیتون کے باغات کی فی ایکڑ پیداوار کا حساب لگانے کے لئے 25 کلو گرام فی پودا پیداوار کو سامنے رکھتے ہیں.
اس طرح ایک ایکڑ میں موجود 400 (اوسط) پودوں سے 10000 ہزار کلوگرام زیتون کا پھل حاصل ہو سکتا ہے.
ایک ایکڑ کے پھل سے کتنا تیل نکل آتا ہے؟
بہتر یہ ہے کہ زیتون کے کاشتکار پھل کو بیچنے کی بجائے اس کا تیل نکلوائیں اور پھر اس تیل کو مارکیٹ میں فروخت کریں. زیتون کے پھل سے 20 سے 30 فی صد کے حساب سے تیل نکل آتا ہے.
20 فی صد کے حساب سے ایک ایکڑ زیتون کے پھل ( 10000 کلوگرام ) سے تقریبا 2000 کلو گرام تیل نکل آتا ہے.
فی ایکڑ آمدن کتنی ہو سکتی ہے؟
یوں تو مارکیٹ میں بڑے بڑے سپر سٹوروں پر آپ کو زیتون کا تیل کوالٹی کے حساب سے 800 روپے سے لیکر 1100 روپے فی کلو تک مل سکتا ہے. لیکن واضح رہے کہ یہ سارے کا سارا تیل باہر سے درآمد کیا جاتا ہے جس کی کوالٹی پر ماہرین کے شدید تحفظات ہیں. ماہرین کہتے ہیں کہ مختلف برانڈوں کا درآمد شدہ تیل جو پاکستانی مارکیٹ میں بک رہا ہے یہ خالص زیتون کا تیل نہیں ہے بلکہ اس میں کئی دوسرے تیلوں کی ملاوٹ ہوتی ہے .
گرین ایگرو کی معلومات کے مطابق چکوال میں تحقیقاتی ادارے کے پلانٹ سے نکالا جانے والا تیل کم از کم 2 ہزار روپے فی کلو کے حساب سے بک رہا ہے. واضح رہے کہ چکوال کا زرعی تحقیقاتی ادارہ کسانوں کو تیل نکالنے کی مفت سہولت فراہم کر رہا ہے.
اگر ریٹ واقعی دو ہزار روپے فی کلو گرام ہو تو آمدن کا حساب آپ خود لگا سکتے ہیں. گرین ایگرو نے آمدن معلوم کرنے کے لئے 800 روپے فی کلو گرام کے ریٹ کو سامنے رکھا ہے.
منقول

February 15, 2018

پاکستان میں کوپن کا کاروبار


پاکستان میں کوپن کا کاروبار 
اگر آپ کو کمپیوٹر کانالج Knowledge ہے تو آپ ایک ایپ APP کے ذریعے اپنا کوپن Coupon کا بزنس شروع کر سکتے ہیں یہ بزنس ایک ، قصبے ، چھوٹے شہر سے بڑے شہروں ہر جگہ کامیاب ہو سکتا ہے۔ آپ کو ابتدائ طور پر500 بزنسز Businesses کو ٹارگٹ کرنا ہوگا جنہیں آپ نے قائل کرنا ہو گا کہ آپ 500 روپے ماہانہ کے عوض ان کے بزنس کے 10٪ ،یا 20٪ کے کوپن اپنی ویب سائٹ ، فیس بک یا سوشل میڈیا پر پبلش Publish کریں گے اور ان سے ان کی سیل میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا یہ کوپن آپ نائ کی دوکان سے لے کر بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور ، ریسٹورنٹ غرضیکہ ہر بزنس کو بلکہ فرینچائیز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو بھی آفر کر سکتے ہیں 
سوچیۓ نہیں کیجیۓ


Saturday, 10 February 2018

February 10, 2018

ٹماٹر ہر گھر کی ضرورت ہے اور خاصہ مہنگا بھی



ٹماٹر
ٹماٹر ہر گھر کی ضرورت ہے اور خاصہ مہنگا بھی۔ خاص طور پہ رمضاں، عید اور دیگر خاص موقعوں پر تو اس کی قیمتیں آسمان پہ اور دستیابی مشکل۔ اس کے علاوہ جو ٹماٹر ملتا ہے اس پر کتنے زہر استعمال ہوتے ہیں یہ سب جانتے ہیں اور جب وہ ٹھیلے پہ ہوتا ہے تو آلودہ پانی سے دھل کر صاف ستھرا لگتا ہے مگر اس کے ساتھ کتنی بیماریاں گھر میں آتی ہیں شاید یہ کم ہی لوگ سوچتے ہیں۔

ان سب باتوں کا بہترین حل یہ ہے کہ دیگر سبزیاں اور ٹماٹر گھروں میں اگائے جائیں۔ اسطرح صاف ستھرے، سستے اور تازہ ٹماٹر گھر بیٹھے حاصل ہونگے۔ ٹماٹر ان سبزیوں میں سے ہے جو آپ باسانی اگا سکتے ہیں۔ اسے گملے میں بھی بہت عمدگی سے اگایا جا سکتا ہے۔ آپ کے گھر میں جتنے لوگ ہیں اگر آپ اتنے ٹماٹر کے پودے لگائیں تو شاید کبھی آپ کو بازار سے خریدنے کی نوبت نہ آئے۔ اس میں شک نہیں کہ زمین میں اگانے کے مقابلے میں گملے میں اس کی قدرے زیادہ دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے تاہم اگر اسکی مناسب خاطر تواضع کی جائے تو یہ آپ کیلئے دل و جان سے خوب پھلے پھولے گا۔
ٹماٹر ان پودوں میں سے ہیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کو پسند کرتے ہیں۔ لہٰذا انہیں پہلے چھوٹے کپ میں اگایا جائے اور پھر جیسے جیسے یہ بڑے ہوں انہیں بڑے کپ اور بعد میں گملے یا گارڈن میں منتقل کریں۔ ٹماٹر کے بیج سیڈ ٹرے میں اگا سکتے ہیں۔ اگر سیڈ ٹرے دستیاب نہیں تو انہیں ڈسپوزبل کپ یا گلاس، منرل واٹر اور سوفٹ ڈرنک کی چھوٹی بوتل کو آدھا کاٹ کر اس میں بھی اگا سکتے ہیں۔ بیج کی بہتر نشونما کیلئے مٹی کا بہتر ہونا بہت ضروری ہے۔ مٹی ایسی ہو جس میں پانی کی نمی برقرار رہے اور اس میں پودے کی بڑھوتری کیلئے ضروری غذائی اجزا بھی شامل ہوں۔ ایسی مٹی کیلئے سب سے آسان نسخہ یہ ہے کہ کمپوسٹ اور ریت کا مکسچر بنایا جائے۔ چکنی مٹی جو ہمارے ہاں ہر جگہ دستیاب ہے قطعاً مناسب نہیں کیونکہ ننھے پودوں کیلئے ایسی مٹی میں اپنی جڑیں پھیلانا انتہائی مشکل ہوتا ہے اور آپکے پودے چھوٹے رہیں گے اور پیداوار بھی کم دیں گے۔
بیج کو آپ گھر کے اندر اگا سکتے ہیں اسطرح بیج اور ننھے پودوں کی دیکھ بھال آسان ہوگی۔ اچھی کوالٹی کا بیج خریدیں اور بیج پر تاریخ چیک کریں اگر وہ پرانے ہوں تو ھرگز نہ لیں۔ اگر آپ سیڈ ٹرے استعمال کر رہے ہیں تو اس میں پہلے ہی سوراخ ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی ڈسپوزبل کپ، بوتل یا کوئی اور برتن استعمال کر رہے ہیں تو اس میں مٹی بھرنے سے پہلے پیندے میں اچھی طرح سوراخ کرلیں۔ کپ میں آدھے سے زیادہ مٹی ڈالکر بیج اس کے اوپر رکھ دیں اور پھر تھوڑی سی مٹی بیج کے اوپر ڈالکر ڈھک دیں۔ ایک کپ میں ایک سے زیادہ بیج بھی ڈال سکتے ہیں تاہم اگر کپس کی تعداد ضرورت سے دگنا رکھیں تو ایک کپ میں ایک بیج رکھنا مناسب ہوگا۔ بیج بونے کے بعد انہیں روزانہ فوارے سے اسطرح پانی دیتے رہیں کہ بیجوں کے گرد مناسب نمی رہے لیکن وہ پانی میں ڈوبنے نہ پائیں۔ اگر بیجوں کو آپ بہار کی آمد سے ۶ سے ۸ ہفتے پہلے سے بوئیں تو آپ بہار آتے ہی انہیں گملوں میں لگا سکتے ہیں اور اس طرح سیزن کے شروع سے ہی آپکو تازہ اور صحتمند ٹماٹر دستیاب ہونگے جنہیں آپ سارا سیزن توڑتے رہیں۔
سیڈ ٹرے یا کپس کو روشن، گرم اور ہوادار جگہ پر رکھیں، ٹماٹر کیلئے مناسب درجہ حرارت ۲۱ سے ۲۷ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ ٹماٹر کے ننھے پودے مناسب ٹیمپریچر میں ایک ہفتے کے اندر بیج سے نکل آتے ہیں۔ ننھے پودوں کو جہاں دھوپ پڑتی ہو وہاں رکھیں، دھوپ ان پر سیدھی سیدھی پڑے تو زیادہ بہتر اگیں گے۔ انہیں گرو لائیٹ کے نیچے بھی رکھ سکتے ہیں۔ ننھے پودوں کو ضرورت کے مطابق پانی اور ہر ہفتہ کھاد دیتے رہیں تاکہ وہ اچھی طرح بڑھتے رہیں گے۔
ٹماٹر منتقل کرنے کیلئے زمیں یا گملے کی تیاری:۔
ٹماٹر کے پودے جب ایک بالشت سے بڑے ہوجائیں تو وہ منتقلی کیلئے تیار ہیں۔ ٹماٹر کو آپ ایک سے زیادہ دفعہ بھی ٹرانسپلانٹ کر سکتے ہیں، جیسے چھوٹے کپ سے، بڑے کپ اور پھر گملے میں۔ انہیں مکمل کھلی جگہ منتقل کرنے سے پہلے سایہ دار جگہ میں رکھیں اور آہستہ آہستہ دھوپ میں رہنے کی عادت ڈالیں اور چند دن بعد انہیں مکمل دھوپ میں رکھیں۔ یہ وہ وقت ہے جب انہیں گملے یا گارڈن میں منتقل کرسکتے ہیں۔ پودے کو آپ گملے میں منتقل کریں یا زمین میں، اس کی بہتر پیداوار کیلئے ضروری ہے کہ اسے اچھی مٹی میں لگایا جائے۔ جس مٹی میں پودے لگائیں اس میں کمپوسٹ، رسوبی یا بالو مٹی اور ریت برابر شامل کریں۔ اگر رسوبی مٹی دستیاب نہیں تو کمپوسٹ اور ریت برابر شامل کریں۔ اگر زمین میں لگا رہے ہیں تو تقریباً ۲ فٹ گہرا اور ایک سے ڈیڑھ فٹ چوڑا گڑھا کھودیں اور اس گڑھے کو پودے کیلئے تیار کردہ مٹی سے بھردیں۔
ٹماٹر کے پودے کو تقریباً تین چوتھائی مٹی کے اندر دھنسانا چاہئے اسطرح ٹماٹر کے تنے پر موجود باریک بال جڑوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور یہ پودے کیلئے مضبوطی، اور خوراک اور پانی کے حصول میں معاون بنتے ہیں۔ مٹی میں ڈالنے سے پہلے نیچے کی شاخیں اور پتے کاٹ لینے چاہئیں۔ پودے کو منتقل کرنے کے بعد اس میں فرٹیلائیزر ڈالیں اور پھر پانی سے سیراب کریں یا فرٹیلائیزر ملے پانی سے سیراب کریں۔
پانی، کھاد اور موسمی ضروریات:۔
ضروری ہے کہ ٹماٹر کی پانی اور خوراک (فرٹیلائیزر یا نیوٹریئینٹ یا کھاد) کا مناسب خیال رکھا جائے۔ اگر پودہ گملے میں منتقل کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے کم از کم پلاسٹک کی عام بالٹی یا اس سائیز کا گملا منتخب کریں، اگر بڑا ہے تو زیادہ بہتر۔ بالٹی یا گملے کے پیندے میں ایک سے دو مربع انچ کا سوراخ کرنا چاہئے۔
ٹماٹر کا پودا جب چھوٹا ہو تو زیادہ نائٹروجن والی کھاد ڈالنی چاہئے لیکن جب پھول آنے لگیں تو زیادہ پوٹاش اور فاسفورس والی کھاد دینی چاہیے۔ پودے جب زمین میں ہوتے ہیں تو اپنی غذائی ضروریات ارد گرد کی مٹی سے حاصل کرلیتے ہیں اسلئے انہیں کھاد کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی تاہم گملوں میں پودوں کو ہر ہفتے یا دس دن میں کھاد دینی چاہئے تاکہ پودے کی گروتھ اور پیداوار متاثر نہ ہو۔ چھوٹے پودوں کو چٹکی بھر جبکہ بڑے پودوں کو تقریباً ایک چمچ کھاد ہر دفعہ ڈالنی چاہئے۔ باغیچے میں بھی ٹماٹر کو بضرورت کھاد ڈالنی چاہئے۔ اگر گرمی ۳۰ سینٹی گریڈ سے زیادہ ہے تو گملے میں روزانہ پانی ڈالیں اور زمین میں لگے پودوں کی بھی پانی کی ضروریات کا دھیان رکھیں اور ہر ہفتے یا دس دن میں فرٹیلائیزر بھی ڈالیں۔ پانی کی کمی کی وجہ سے پودوں کو مرجھانے نہ دیں اگر پودے بار بار مرجھائیں گے تو ان کی پیداوار متاثر ہوگی۔ پودوں کی جڑوں میں نمی برقرار رکھنے اور جڑی بوٹیوں سے بچنے کیلئے ملچنگ کریں، یعنی پودے کے اردگرد کی مٹی کو لکڑیوں کے تنکوں، گھاس پھوس، گتے یا کسی اور چیز سے ڈھک دیں۔
ٹماٹر کے پودے کو مکمل دھوپ میں رکھیں اور جب ٹماٹر پکنے لگیں تو انہیں توڑ لیں اور پورا لال ہونے کا انتظار مت کریں، (ایسے ٹماٹروں کو کمرے میں گرم جگہ رکھیں یہ خود سے پک جائیں گے)۔ اسطرح پودوں کی تونائی مزید پھل پیدا کرنے میں صرف ہوگی۔
بیماریاں:۔
ٹماٹر ایک نازک پودا ہے اسلئے اسکی صحت و سلامتی کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ ٹماٹر پر کئی چیزیں حملہ آور ہوتی ہیں۔ ٹماٹر کو پتے اور پھل کھانے والے کیڑے کٹ ورم یا سنڈی سے بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ اگر اسطرح کے کیڑے یا بغیر چھلکے کے گھونگھے دیکھیں تو انہیں فوراً پکڑ کر تلف کردیں۔ اگر کوئی اور قسم کے اڑنے والے حشرات کا سامنا ہو تو انہیں پانی کے تیز اسپرے سے بھگا دیں۔ اس سلسلے میں گھریلو نسخے جیسے نیم کا عرق، مرچوں اور لہسن کے اسپرے وغیرہ کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔
کچھ پودوں میں ٹماٹر کی نیچے والی سائیڈ کالی ہوکر اندر کی طرف دھنس جاتی ہے، یہ ایک غذائی بیماری ہے جو کیلشیم کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ایسے پودوں کو کیلشیم کا اسپرے کرنا چاہئے جیسے کیلشیم کلورائیڈ یا کیلشیم نائٹریٹ۔ اس کام کیلئے انڈوں کے چھلکوں کا باریک پائوڈر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کی خاصی مقدار اس کام کیلئے درکار ہوگی۔ کچھ پودوں میں ٹماٹر پھٹ جاتے ہیں، اسکی وجہ پانی کی کمی بیشی ہے، اسلئے پانی کی مقدار متواتر رکھیں۔

February 10, 2018

مرچ اگانا آسان ہے بہت مہنگی سبزی کی نسل ہے



مرچ اگانا آسان ہے
مرچ ان پودوں میں سے ہے جو ہر جگہ باآسانی اگایا جاسکتا ہے۔ زمیں ہو یا گملا عام طور پہ اسے زیادہ خاطر تواضع کی ضرورت نہیں ہوتی کہ یہ ایک سخت جان پودہ ہے۔ زمین میں اگانے کے مقابلے میں گملے میں اس کے قدرے زیادہ دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے تاہم اسے گملے میں لگانے کا فائدہ یہ ہے کہ یہ دو سے تین سال تک آپ کو پھل دیتا رہے گا، بس شرط یہ ہے کہ اسے سخت سردی سے بچاتے رہیں باقی گرمی یہ خود سے جھیل لے گا۔

مرچ اگانا آسان ہے، اس کے بیج سیڈ ٹرے کے علاوہ کسی ڈسپوزبل کپ یا گلاس، یا منرل واٹر اور سوفٹ ڈرنک کی چھوٹی بوتل کو آدھا کاٹ کر اگا سکتے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ اسے کمپوسٹ اور ریت کے مکسچر میں اگائیں۔ اگر مٹی چکنی ہوگی تو ننھے پودوں کیلئے اپنی جڑیں پھیلانا مشکل ہوگا۔ بیج اگر گھر کے اندر اگائیں تو زیادہ بہتر ہے لیکن انہیں روشن، گرم اور ہوادار جگہ پر رکھیں، اگر دھوپ ان پر سیدھی سیدھی پڑے تو اور بہتر۔ گھر کے اندر اگانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ سرد موسم میں بھی انہیں اگا سکتے ہیں۔ مرچ کیلئے مناسب درجہ حرارت ۱۸ سے ۲۵ ڈگری سینٹی گریڈ ہے یعنی انہیں عام روم ٹیمپریچر پر اگایا جا سکتا ہے۔
بہتر پیداوار کیلئے دیگر باتوں کے علاوہ بیج کا اچھی کوالٹی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ کپ میں آدھے سے زیادہ مٹی ڈالکر بیج اس کے اوپر رکھ دیں اور پھر تھوڑی سی مٹی بیج کے اوپر ڈالکر ڈھک دیں۔ بیج بونے کے بعد انہیں روزانہ اسطرح پانی دیتے رہیں کہ بیجوں کے گرد مناسب نمی رہے لیکن وہ پانی میں ڈوبے نہ رہیں۔ یاد رہے کہ کپ میں مٹی بھرنے سے پہلے اس میں اچھی طرح سوراخ کرنے چاہیئں۔ تقریباً ہفتہ یا دس دن تک ننھے پودے نکل آئیں گے۔
مرچ منتقل کرنے کیلئے گملے کی تیاری:۔
گملوں میں مرچ یا دیگر کوئی بھی پودے اگانے کیلئے سب سے مناسب مٹی وہ ہے جس میں سے پانی آسانی سے گذر جائے۔ ایسی مٹی تیار کرنے کیلئے ایک حصہ ریت، ایک حصہ رسوبی مٹی اور ایک حصہ کمپوسٹ آپس میں ملائیں۔ اگر فقط ریت اور کمپوسٹ ملائیں تب بھی کوئی مضائقا نہیں۔ ریت کی جگہ اینٹوں کا برادہ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ گملے کے پیندے میں ایک مربع انچ یا اس سے بڑا سوراخ کرنا چاہئے۔ مرچ کو آپ ایک سے زیادہ دفعہ بھی ٹرانسپلانٹ کر سکتے ہیں جیسے چھوٹے کپ سے، بڑے کپ اور پھر گملے میں۔ اس کا انحصار موسم اور پودے کی سائیز پر بھی ہے۔ جب پودہ چھ انچ سے ایک فٹ کا ہوجائے تو اسے گملے میں منتقل کرنا چاہئے۔
پانی، کھاد اور موسمی ضروریات:۔
مرچ کے پودوں کو ٹماٹر کے مقابلے میں کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر مرچ کا پودا گھر کے اندر سائے میں ہے تو ہر دوسرے یا تیسرے دن پانی دینا چاہئے لیکن جب پودا گملے میں اور مکمل دھوپ میں ہے تو اسے روزانہ یا کم از کم ہر دوسرے دن پانی دینا چاہئے۔
مرچ کا پودا جب چھوٹا ہو تو زیادہ نائٹروجن والی کھاد ڈالنی چاہئے لیکن جب پھول آنے لگیں تو زیادہ پوٹاش اور فاسفورس والی کھاد دینی چاہیے۔ پودے جب زمین میں ہوتے ہیں تو اپنی غذائی ضروریات ارد گرد کی مٹی سے حاصل کرلیتے ہیں اسلئے انہیں کھاد کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی تاہم گملوں میں پودوں کو ہر ہفتے یا دس دن میں کھاد دینی چاہئے تاکہ پودے کی گروتھ اور پیداوار متاثر نہ ہو۔ چھوٹے پودوں کو چٹکی بھر جبکہ بڑے پودوں کو تقریباً ایک چمچ کھاد ہر دفعہ ڈالنی چاہئے۔ باغیچے میں بھی مرچ کو بضرورت کھاد ڈالنی چاہئے۔
مرچ کو مکمل دھوپ میں رکھیں اور جب مرچیں مناسب سائیز کی ہوجائیں تو انہیں توڑنا چاہئے تاکہ پودے کی انرجی نئی مرچوں پر صرف ہو۔ اضافی مرچوں کو ریفریجریٹر میں محفوظ کرلیں یا سکھا لیں۔
بیماریاں:۔
مرچ ایک سخت جان پودہ ہے اسلئے اسے بیماری کم ہی لگتی ہے اور ویسے بھی زرعی زمینوں یا باغیچوں سے دور لگائی گئی گھریلو سبزیوں کو بیماریوں کا خطرہ کم ہوتا ہے، تاہم بیماری کی صورت میں گھریلو نسخے جیسے نیم کا عرق، مرچوں کا اسپرے وغیرہ کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگر حشرات کا سامنا ہو تو انہیں پانی کے اسپرے یا ہاتھ سے پکڑ کر تلف کردینا چاہئے۔ اگر وائرس کا حملہ ہو تو پودے کو تلف کردینا چاہئے تاکہ وائرس دیگر پودوں تک نہ پھیلے۔
Image may contain: food


February 10, 2018

سونے کی قیمت پر فروخت ہونے والی فصل زعفران-اب آپ سونا اپنے گھر یا کھیت اور فارم میں اگائیں


اب آپ سونا اپنے گھر یا کھیت اور فارم میں اگائیں 
سونے کی قیمت پر فروخت ہونے والی فصل زعفران
عفران کیا ہے؟
سیفران انگریزی میں جبکہ عربی اردو میں زعفران کہتے ہیں۔ ایک قیمتی مصالحہ یعنی سپائس ہے جو مختلف ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔اور بذات خود بہت ساری بیماریوں اور پیچیدگیوں کا علاج ہے۔آج سے سو سال قبل زعفران کی فی تولہ قیمت سونے کی فی تولہ قیمت سے زیادہ تھی۔ہربل اور میڈیسنل پراڈکٹ کی وجہ سے دنیا بھر میں اس کی بہت مانگ ہے۔ایران، اسپین،آکلینڈ،نیدر لینڈ، انڈیا،برازیل، کشمیروغیرہ کے زعفران دنیا بھر میں پسند کئے جاتے ہیں۔ ایران اکیلا ایسا ملک ہے جو پوری دنیا کی نوے فیصد ضرورت پوری کررہا ہے۔ اور یہ ضرورت ایران کی چند ایک چھوٹے چھوٹے قصبے ہیں۔جنہوں نے زعفران کی کاشت پر توجہ دی ہے اور وہی لوگ پوری کررہے ہیں۔ یوں زعفران کی اہمیت اور فوائد انسانی زندگی کے لئے کلونجی کی مانند ہے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ صرف سرد علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے۔ یہ دراصل سردیوں کا پودا ہے جو سردیاں شروع ہوتے ہی لگایا جاتا ہے اور آٹھ ہفتوں سے لیکر بارہ ہفتوں کے درمیان پھول آجاتے ہیں۔ طبی لحاظ سے زعفران کے بہت سارے فوائد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اگر اسے اپنے معمولات کے کھانوں میں استعمال کرنا شروع کیا جائے تو بہت ساری بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتاہے۔اور سالانہ صحت کے مد میں اخراجات میں کافی حد تک کمی آسکتی ہے۔پاکستان میں اس کی کاشت۱۵اگست سے لیکر ۲۵اکتوبر تک کیا جاتا ہے۔ جن علاقوں میں اس دوران درجہ حرارت ۳۵ کے نیچے آنا شروع ہوجائے تب اسکو لگایا جاتا ہے۔ یعنی بعض علاقوں میں اگست میں جبکہ بعض علاقوں میں ستمبر یا اکتوبر میں لگایا جاتا ہے۔جن علاقوں میں۲۵اکتوبر تک بھی درجہ حرارت ۳۵کے نیچے نہ آئیں۔تو ان علاقوں میں نہیں لگانے چاہیئے۔جبکہ بعض لوگ اکتوبر کے آخر اور نومبر میں بھی لگا لیتے ہیں۔اور ان کے نتائج بھی اچھے آچکے ہیں۔ مگر بہتر یہی ہے کہ ۱۵اگست اور ۲۵ اکتوبر کے درمیانے عرصہ میں لگائیں۔ذہن نشین کرلیں کہ جب بھی آپ کے علاقہ کا درجہ حرارت ۱۵اگست اور۲۵اکتوبر کے درمیان ۳۵کے نیچے آنا شروع ہوجائے تو اس پودے کو لگایا جاسکتا ہے۔یعنی کہ سردیاں شروع ہوتے ہی لگایا جاتا ہے۔اگر پاکستان میں اس فصل کو فروغ دیا جائے تو ہمارے لاکھوں بے روزگار شہری لاکھوں کروڑوں روپے کما سکتے ہیں۔اور وطن عزیز کو زرمبادلہ کی صورت میں اربوں روپے کما کے دے سکتے ہیں۔
کاشت کرنے کا طریقہ:
زعفران کاشت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک حصہ مٹی،ایک حصہ گوبر کھاد اور ایک حصہ ریت آپس میں برابر مقدار میں چھان کر گملوں،فروٹ کے پلاسٹک کریٹ،گھی ڈبوں،کھیت ،کھیاری،باغیچہ یا کسی بھی زمیں میں لگایا جاسکتاہے۔اگر گملے یا کسی کنٹینر میں لگانے ہوں تو گملہ کے اندر چند ایک پتھر ڈال دیں تاکہ سوراخ مٹی سے بلاک نہ ہوں۔اور یہ ایک ویل ڈرینڈ پاٹ بن سکے۔مقصد یہ ہوتاہے کہ نکاس آب اچھے سے ہو۔کیونکہ زعفران کے پودے کے لئے زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔مٹی کھاد اور ریت بھرنے کے بعد اگست ستمبر یا اکتوبر جس ماہ بھی درجہ حرارت۳۵کے نیچے آنا شروع ہو۔اس میں زعفران کاشت کئے جاتے ہیں۔جس طرح لہسن کا بلب دو یا ڈیڑھ انچ مٹی کے اندر اسطرح لگایا جاتا ہے کہ اس کے اوپر کی سطح مٹی سے باہر نظر آسکتا ہو اسی طرح زعفران کا بلب لگایا جاتاہے۔گملے کے ارد گرد اندر کی جانب تھوڑا سا پانی دیں تاکہ گملہ کے اندر مٹی میں نمی آسکے تاکہ بلب سرسبز ہونے مدد دے سکے۔ہر دوسرے تیسرے روز معائنہ کرلیں اگر پانی کی ضرورت محسوس ہو تو تھوڑا سا پانی اور دیں۔ پھولوں کے آنے تک پانی زیادہ دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ہفتہ دس دن بعد تھوڑا سا فوار یا شاور ہی کافی ہوتا ہے تاکہ مٹی نم رہے۔پھولوں کے آنے تک نم رکھیں زیادہ نمی بھی نقصان دہ ہوتی ہے۔اتنا پانی نہ دیں کہ جس سے گملے کے اندر کیچڑ پیدا ہو۔
کھیت میں لگانے کے لئے ضروری ہے کہ کھیت اس طرح ہموار کرنی چاہیئے کہ اس سے پانی کا اخراج آسانی سے ہو۔تاکہ پانی زیادہ دیر تک کھڑا نہ ہو ۔کھیت میں ہر چھ سے بارہ انچ قطاروں میں لگائیں۔تاکہ درمیان میں ایک بندہ آسانی سے گزر سکتا ہو۔درمیانی راستہ اگر ایک فٹ سے زیادہ رکھ لیں اور پودا چھ انچ کے فاصلے پر لگائے تو زیادہ بہتر ہوتاہے۔ویسے اس سے کم فاصلے پر بھی لگایا جاسکتاہے۔فاصلہ اگر زیادہ رکھ لیا جائے تو اس کا یہ فائدہوتاہے کہ زمین کے اندر بلب بڑے اور زیادہ پروڈیوس ہوتے ہیں۔اور زعفران کے بلب بھی کافی مہنگے ہیں۔آٹھ ہفتوں سے بارہ ہفتوں کے درمیان زعفران کا پودا پھول دیتاہے اور ہر پھول کے درمیان تین لال رنگ کے ریشے ہوتے ہیں جس کو سٹگما کہتے ہیں نکلتے ہیں۔ اور یہی زعفران کہلاتے ہیں۔ یعنی زعفران کے پھولوں کے اندر تین لال رنگ کے ریشوں کو کاٹ کر دس بارہ گھنٹے تک چھاوں میں سوکھا کر وہی زعفران کہلاتے ہیں جو مارکیٹ میں ۵۰۰ ۶۰۰ کا ایک گرام ملتاہے۔چھاوں میں اچھے سے سوکھانے سے سٹگماز کی لائف بڑھ جاتی ہے۔اور زیادہ عرصہ کے قابل استعمال ہوتے ہیں۔سٹگماز حاصل کرلینے کے بعد پودے کو اسی جگہ رہنے دیں۔ کیونکہ ایک پودے سے مزید بلب زمین کے اندر پروڈیوس ہوتے ہیں۔بعض علاقوں میں بلب ایک سال میں میچور ہوجاتے ہیں جبکہ بعض علاقوں میں دو سال میں یعنی جولائی اگست تک ۔جولائی اگست میں چاہیں تو بلب کو اکھاڑ کر دوسری جگوں پر لگائے جاتے ہیں یا اگر رہنے دیئے جائیں تو اس سے زیادہ پھولوں اور زیادہ سٹگماز پھولوں کے سیزن میں آئیں گے اور اگر اس کو تین چار سالوں تک ایک ہی جگہ پر رہنے دیا جائے اور دیکھ بھال کی جائے تو یہ گھاس کی طرح تین چار فٹ تک جگہ گھیر لیتی ہے۔ اگر ہر سال اکھاڑنا مقصود نہ ہوں تو لگاتے وقت زیادہ فاصلہ سے لگائیں۔ اور یاد رہے کہ پہلے سال اس سے ۴ سے ۸ تک بلب پروڈیوس ہونگے دوسرے سال ۴ ۸ کے تناسب سے مزید سٹگماز اور بلب پروڈیوس ہونگے۔ اور اسی طرح پہلے سال کی نسبت دوسرے تیسرے چوتھے پانچویں سال کی پروڈکشن میں اسی تناسب سےاضافہ ہوتا جائے گا۔
پانی:
زعفران کے پودے کو زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہفتہ دس دن بعد ہلکا سا فوار یا شاور کافی ہوتا ہے۔بارش یا پانی آنے کی صورت میں کھیت یا گملے سے نکاس اچھے سے ہو۔ پھول چونکہ سردیوں آتے ہیں اس لئے زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی جب سٹگماز حاصل کرلئے جاتے ہیں تو جنوری فروری میں ہلکا فوار اور اس کے بعد مارچ اپریل مئی جون جولائی تک پانی زیادہ مقدار میں دیا جاسکتاہے۔ کیونکہ اس دوران اس میں پھول نہیں لگتے بلکہ ساری محنت بلب کے حصول کے لئے کی جاتی ہے۔ کھیتوں میں لگانے کے لئے بیڈز بنائیں اور دونوں جانب نالے دیں تاکہ پانی کی نکاس اچھے سے اور جلدی ہو۔ اگر گملہ لگانا ہو تو پانی ہفتہ میں ایک بار شاور یا فوارے سے دیا کریں۔ زیادہ پانی دینے سے پودا خراب ہوسکتاہے۔ کھیت میں پانی دینے کے لئے ضروری ہے کہ چیک کیا جائے کہ کھیتی میں زیادہ نمی نہ ہو۔ یعنی دس پندرہ دنوں میں درکار ہوتا ہے۔ اور نکاسی اچھے سے ہو پانی کھڑا ہونے نہ دیں۔
مارکیٹ:
پاکستان میں بہت سارے ہربل مینوفیکچررز کمپنیاں موجود ہیں، اس کے علاوہ دواخانے، حکیم صاحبان، پنسار سٹورز حضرات اور بہت سے دواساز کمپنیاں موجود ہیں۔ جن کے مصنوعات میں زعفران ایک اہم جز ہوتا ہے۔ اور یہی لوگ اربوں روپے کے زعفران باہر ممالک سے ایمپورٹ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے شہروں میں زعفران پیکنگ کمپنیاں ہیں جو آن لائن اور آف لائن زعفران کو پیک کرکے اندرون و بیرون ملک سیل کرتے ہیں۔ زعفران کے عادی افراد کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ اگر پاکستان میں اس کی کاشت توجہ دی گئی تو انشا ء اللہ وہ دن دور نہیں کہ ہمارا ملک بھی ایران کی طرح ایک بڑا ایکسپورٹر بن جا ئے گا۔ انشاء اللہ
احتیاطی تدابیر:
بلب لگاتےوقت اور پھولوں کے آنے تک سوئل نم رکھیں۔
زیادہ پانی دینے سے گریز کریں۔
بلب اکھاڑتے وقت سوئل کو خشک رکھیں۔
نکاس آب کا خاص خیال رکھیں۔
خرگوش، چوہے،بچے پرندے اور چوروں کی پہنچ سے دور رکھیں۔
اس پودے میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت زیادہ ہوتی ہے۔ اگر کوئی بیماری آ بھی جائے تو وہی اسپرے دوا استعمال کرے تو عام پھولوں پودوں کی بیماریوں کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔فاضل جڑی بوٹیوں کو پودے کے آس پاس نہ چھوڑیں۔ اور گوڈی باقاعدگی سے ضروری ہے۔
آمدن:
زعفران سے تین قسم کی آمدن حاصل کی جاسکتی ہے۔
سٹگماز:
سٹگماز فی گرام ۵۰۰ ۶۰۰ روپے مارکیٹ ملتا ہے۔ بلکہ بعض حضرات تو اسپینش ،کشمیری ،ایرانی کے نام پر ایک ہزار بارہ سو روپے پر بھی فروخت کرتے ہیں۔
بلب:
ایک پودے سے سال دو سال میں مزید چار سے آٹھ تک بلب پروڈیوس ہوتے ہیں۔ ایک کنال میں بارہ ہزار پودے لگائے جاتے ہیں۔ اگر اوسط بلب پروڈکشن پانچ بھی ہو تو کنال سے ساٹھ ہزار تک بلب پروڈیوس ہوتے ہیں جو آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
زعفرانی شہد:
جب پودے میں پھول اور سٹگماز آجاتے ہیں تو اس دوران شہد کی مکھیوں کی پیٹیاں رکھی جاتی ہیں۔ جس سے حاصل ہونے والا شہد ستر ہزار روپے سے لیکر نورے ہزار روپے فی کلو مارکیٹ میں ملتا ہے۔ دوبئی میں پچیس سو درہم سے لیکر تین ہزار درہم کا ایک کلو ملتاہے۔ جو زیادہ تر طبی ماہرین پانچ سو سے زیادہ بیماریوں کا علاج سمجھتے ہیں۔
کوالٹی:
اسپین، ایران اور کشمیری زعفران دنیا بھر میں کافی مشہور ہیں۔ اکثر لوگ اسپینش زعفران یا انڈین کشمیری زعفران کو بہت اعلی معیار کا مانتے ہیں۔دراصل زعفران کا معیار ایک ہی ہوتاہے۔ قدرت نے وہ تمام صفات اس میں رکھی ہیں۔ جو صفات اسپینش یا کشمیری میں ہیں وہی صفات ایرانی زعفران میں بھی ہیں۔ اسپینش زعفران یا کشمیری سرد علاقوں کا زعفران ہے جسے بہت محنت کے ساتھ شدید برفباری اور سردی میں تیار کیا جاتاہے۔ یورپ میں اسی محنت کو دیکھ کر معاوضہ طے کیا گیا ہے اس لئے اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اسپینش زعفران زیادہ معیاری اور مہنگے ہوتے ہیں۔ ٹماٹر چاہے تین ڈالر کلو ہو یا پانچ ریال یا درہم یا تیس روپے کلو ۔غذائیت، سرخی،ترشی وہی ہوتی ہے جو کھانے کو خوش ذائقہ بنانے کے کام آتی ہے۔
سٹگماز اور بلب کو محفوظ رکھنا:
سٹگماز کو پھولوں سے الگ کرکے کسی صاف کپڑے یا کاغذ پر ایسی جگہ رکھیں جہاں پر تیز ہوا نہ چلتی ہو تاکہ یہ بکھر نہ جائیں دس بارہ گھنٹے چھاوں یعنی سایہ میں کسی کمرے یا برآمدے میں سوکھایا جاتا ہے جتنا اچھے سے سوکھائے جائیں گے۔ اتنی ہی اس کی لائف زیادہ ہوگی۔ سوکھانے کے بعد ائیر ٹائیٹ جار،بوتل،پاٹ،شیشہ میں محفوظ کر لئے جاتے ہیں۔
بلب کو محفوظ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہوادار جگہ پر رکھے جائیں۔ اور ہفتہ دس دن بعد معائنہ کرکے صاف کئے جائیں تاکہ اس میں کوئی خرابی نہ آسکے۔ یا آسان الفاظ میں جس طرح لہسن یا پیاز کے بلب کو محفوظ کیا جاتا ہے۔اسی طرح زعفران کے بلب بھی محفوظ کئے جاتے ہیں۔ تاکہ یہ سیزن میں لگانے کے کام آ سکے۔
منقول

Image may contain: plant, flower, outdoor and natureImage may contain: flower, plant, nature and outdoor

Image may contain: plant and flowerImage may contain: plant, flower, nature and outdoor


February 10, 2018

اپنے تالاب یا کھیتی باڑی کیلئے کم خرچ میں سولر پمپ خود بنائیں۔


اپنے تالاب یا کھیتی باڑی کیلئے کم خرچ میں سولر پمپ خود بنائیں۔ 
سولر پمپ کی تفصیل
دوستو ہم نے آپ کی سہولت کی خاطر ایک چھوٹا پمپ بنانے کیلئے تھوڑی سی ریسرچ کی ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔ امید ہے یہ آپ کیلئے فائدہ مند ہوگی۔
سولر پینل 500 واٹ = قیمت تقریباً 60 سے 70 روپے فی واٹ (ٹوٹل قیمت اندازاً 35000 روپے)
میرین submersible پمپ (واٹر پروف پمپ) 1/2 HP دو انچ ڈلیوری = (قیمت اندازاً 30000 سے 40000 روپے)
پرانے ٹائر کے ساتھ ریڑھی اور سولر فریم = (قیمت اندازاً 10000 روپے)
سرکٹ بریکر اور سوئچ = (تقریباً 500 روپے)
موٹرسائیکل کا ٹیوب = (تقریباً 200 روپے)
پائیپ: ضرورت کے مطابق
بالٹی اور رسی = (تقریباً 500 روپے)
واٹر پروف وائر = (تقریباً 1000 روپے)
واٹر پروف کنیکٹر= (تقریباً 250 روپے)
ٹوٹل خرچہ : اندازاً 80،000 سے 90,000 روپے
توٹ: قیمتیں جگہ، کوالٹی اور برانڈ کے حساب سے کم یا زیادہ ہو سکتی ہیں۔ اگر پمپ بڑا چاہتے ہیں تو سولر پینل بھی بڑا لینا ہوگا۔
پمپ بنانے کی مزید تفصیلات کیلئے وڈیو ملاحظہ کریں)۔)
منقول
https://youtu.be/bPvPJuvLw9Q


Friday, 9 February 2018

February 09, 2018

بہت مہنگی سبزی کی نسل ہے Mushroom ( کھمبی)




کمبھی (Mushroom) بہت مہنگی سبزی کی نسل ہے۔ اس کی پیداوار بہت آسان ہے اور منافع کی شرح بہت زیادہ ہے۔ بڑے ہوٹلز اور بیرون ملک ان کی بہت مانگ ہے۔ اس کاروبار کو کرنے کے لیے زیاداہ سرامایہ بھی درکار نہیں۔ پاکستان کا موسم بھی اس کی پیداوار کے لحاظ سے اچھا ہے۔ تقریبا 1500 روپے کلو تک فروخت ہو جاتا ہے

Image may contain: grass, plant, text, outdoor and natureImage may contain: plant, outdoor, text and nature

February 09, 2018

ہاتھ سے تیار کردہ مختلف قسم کی چیزوں کا کاروبار



























ہاتھ سے تیار کردہ مختلف قسم کی چیزوں کا کاروبار دنیا میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ لوگ اپنے کلچر سے متعلق چیزیں بنا کر بیچتے ہیں۔ پاکستان میں اس کام کو اتنی توجہ نہیں دی جاتی۔ اگر اس کاروبار کو فروغ دیا جائے تو گھریلو خواتین بہت اچھا سرمایا کما سکتی ہیں۔ اور مرد خضرات بھی اس کاروبار میں اچھا روزگار کما سکتے ہیں۔

Image may contain: 2 people, people sitting and outdoor


Image may contain: shoesNo automatic alt text available.



February 09, 2018

بطخ کے انڈے اور گوشت کا کاروبار




بطخ کے انڈے اور گوشت کا کاروبار
پاکستان میں بطخ کے گوشت اور انڈوں کی پیداوار پر اتنا توجہ نہیں دی جا رہی۔ بیرون ممالک میں بطخ کے گوشت اور انڈو کی بہت مانگ ہے اور اس کے باقاعدہ فارم بنائیں گے ہیں۔
Image may contain: outdoor
اگر ہم پاکستان میں بطخ کی پیداوار میں اضافہ کریں تو ہم مرغی کے گوشت سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے کافی حد تک نجات پا سکتے ہیں۔ اور بیرون ممالک کو بھیجوا کر اچھا زر مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔
مرغی کی نسبت بطخ کی فارمنگ آسان ہے اور گوشت کی مقدار بھی زیادہ حاصل 

ہوتی ہے

Image may contain: bird, outdoor and water